سابق امریکی صدر اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ مبینہ طور پر دنیا کے امیر ترین شخص اور مشہور ٹیک انٹرپرینیور ایلون مسک کو ڈیپورٹ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایک ریپبلکن ٹیکس بل پر اختلاف کے بعد سامنے آئی ہے، جسے امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔
فلوریڈا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران جب صحافیوں نے ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ ایلون مسک کو ٹیکس بل کی مخالفت کی بنیاد پر ملک بدر کریں گے تو ٹرمپ نے مبہم جواب دیا:”مجھے نہیں پتا، ہم دیکھیں گے۔”اگرچہ یہ براہِ راست دھمکی نہیں تھی، لیکن اس بیان نے سیاسی و عوامی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایلون مسک الیکٹرک گاڑیوں کی حکومتی سپورٹ (EV مینڈیٹ) ختم ہونے پر پریشان ہیں، اور خبردار کیا کہ “وہ مزید بھی بہت کچھ کھو سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ اخراجات سے متعلق بل پاس کروا لیں گے، جس میں متنازع ٹیکس اصلاحات شامل ہیں۔
اختلاف کی بنیاد ریپبلکن پارٹی کا مجوزہ ٹیکس بل ہے، جو الیکٹرک گاڑیوں کی خریداری پر دی جانے والی وفاقی سبسڈی (کنزیومر کریڈٹ) کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ کریڈٹ کئی ہزار ڈالر تک کا ہو سکتا ہے، جس نے امریکہ میں ای وی کی فروخت میں اضافہ کیا ہے۔ اس سہولت کے خاتمے سے ٹیسلا سمیت دیگر کمپنیوں کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔
ایلون مسک، جو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے اور اب امریکہ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کی شہریت رکھتے ہیں، اس بل کے خلاف کھلے عام آواز بلند کر رہے ہیں۔ ایک وقت میں ریپبلکن پالیسیوں کے حامی سمجھے جانے والے مسک اب ماحولیاتی اور اقتصادی معاملات پر پارٹی کے مؤقف پر تنقید کر رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگر مسک امریکہ کے شہری ہیں، تو ان کی ملک بدری ممکن نہیں۔ اگر وہ محض گرین کارڈ ہولڈر یا دہری شہریت رکھتے ہیں، تب بھی ڈیپورٹیشن کے لیے مضبوط قانونی جواز درکار ہوگا، جو فی الحال موجود نہیں ہے۔
ٹرمپ کے بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے شدید ردِ عمل دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پالیسی اختلافات کی بنیاد پر کسی کی شہریت کو نشانہ بنانا جمہوری اصولوں اور آزادی اظہارِ رائے کے خلاف ہے۔
ایلون مسک یا ٹیسلا کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ٹیک انڈسٹری کے کئی رہنماؤں نے ٹرمپ کے بیان کو تشویشناک اور “غیر امریکی” قرار دیا ہے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ کا بیان سنجیدہ تھا یا محض ایک وقتی تبصرہ، لیکن اس واقعے نے ٹیک دنیا اور سیاست کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلاف کو مزید اجاگر کر دیا ہے — ایک کشمکش جو آنے والے انتخابی سال میں مرکزی حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔