اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کے لیے پاکستانی حکومتی حکام کی جانب سے حمایت نہ ملنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، جو ان کے کیس پر سرگرم عمل ہیں۔ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر حالیہ سماعت کے دوران جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے نشاندہی کی کہ اسمتھ کی اس کیس کے سلسلے میں افغانستان کے دورے سمیت اہم کوششوں کے باوجود کوئی بھی سرکاری اہلکار کھل کر حمایت کے لیے آگے نہیں آیا۔ سماعت میں فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق، عدالتی معاون زینب جنجوعہ، سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے شرکت کی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے کارروائی میں شامل ہوئے۔ جسٹس خان نے حکومت کے موقف پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ حکومت کی طرف سے کسی نے اسمتھ کے ساتھ یکجہتی کیوں نہیں دکھائی۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’کلائیو اسمتھ نے عافیہ صدیقی کے کیس کے لیے کوششیں کیں، حتیٰ کہ افغانستان کا سفر بھی کیا، لیکن ایک بھی اہلکار ایسا نہیں جس نے کہا ہو کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت کو کس بات کا ڈر ہے؟” اس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے دلیل دی کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کو مسلسل مدد فراہم کر رہی ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پالیسی کی سطح کے فیصلوں میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر صدیقی کی رہائی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں، حالانکہ اس طرح کے اقدامات پر غور و فکر کی ضرورت ہے اور اس میں جلد بازی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر دباؤ ڈالا کہ کیا ڈاکٹر صدیقی کے لیے معافی کی درخواست وائٹ ہاؤس کو لکھی گئی ہے۔ جسٹس خان نے اس معاملے میں حتمی قدم اٹھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ جسٹس خان نے کلائیو اسمتھ کو مزید ہدایت کی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جانب سے معافی کی اپیل کا مسودہ تیار کریں اور اسے ایک ہفتے کے اندر پاکستانی حکومت کے ساتھ شیئر کریں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے مطلوبہ رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے پانچ ہفتے کی توسیع کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سماعت 13 ستمبر 2024 تک ملتوی کر دی۔ یہ سماعت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی حراست سے رہائی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں جاری چیلنجوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس حکومت کے اقدامات اور اس کے قانونی نمائندوں کی کوششوں کے درمیان واضح تعلق کو اجاگر کرتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی دونوں حلقوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ، اس کیس میں حکومت کے کردار کی جانچ پڑتال بڑھ رہی ہے، خاص طور پر صدیقی کی قانونی ٹیم کی حمایت اور پاکستان واپسی کے لیے اس کے عزم کے حوالے سے۔
Check Also
نیپرا نے حفاظتی غلطیوں پر گیپکو کو 10 ملین روپے جرمانہ کیا
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) پر مناسب حفاظتی …