پاکستان کی سیاسی حرکیات کے گرد تناؤ کو اجاگر کرنے کے اقدام میں، پاکستان کی پارلیمنٹ کے 160 اراکین نے امریکی کانگریس کے 62 اراکین کی طرف سے صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط کی شدید مذمت کی ہے، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کی حمایت پر زور دیا گیا ہے۔ ان پاکستانی قانون سازوں نے جواب میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک تفصیلی خط لکھ کر امریکی خط کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
سیاست دان طارق فضل چوہدری، نوید قمر، مصطفیٰ کمال، آسیہ ناز تنولی، اور خالد مگسی سمیت ممتاز دستخط کنندگان نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی بین الاقوامی وکالت پاکستان کے سیاسی اور جمہوری چیلنجوں سے نمٹنے کی خود مختاری کی کوششوں کو متاثر کرتی ہے۔ اپنے خط میں، وہ وزیر اعظم شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی کانگریس کے ارکان سے بات کریں کہ بیرونی اثر و رسوخ پاکستان کے جمہوری استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، خاص طور پر موجودہ سیاسی ماحول کی پیچیدگی کے پیش نظر۔
پاکستانی قانون سازوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے بانی خان پر الزام لگایا کہ وہ “انتہا پسند سیاست” کو فروغ دے رہے ہیں جو ملک کی حکمرانی اور جمہوری سفر کو پیچیدہ بناتی ہے۔ انہوں نے 9 مئی 2023 کے واقعات کا حوالہ دیا، جب پی ٹی آئی کے حامیوں نے، مبینہ طور پر خان کے اکسانے پر عمل کرتے ہوئے، اہم عوامی بدامنی برپا کی، جس میں اہم حکومتی ڈھانچے جیسے پارلیمنٹ، سرکاری ٹیلی ویژن ہیڈ کوارٹر، اور ریڈیو پاکستان پر حملے بھی شامل تھے۔