فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس ملک چھوڑنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد قطر میں اپنا دفتر بند کرنے کا سوچ رہی ہے۔ ایک امریکی اخبار کے مطابق یہ فیصلہ شدید مذاکرات اور دباؤ کے ہتھکنڈوں کے بعد کیا گیا ہے جس میں حماس کو قطر کے احاطے کو خالی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حماس نے ایک نیا سیاسی دفتر قائم کرنے کی کوشش میں خطے کے دو ممالک کے ساتھ رابطے شروع کیے ہیں، جن میں عمان بھی ایک ہے۔ یہ ممکنہ اقدام حماس کے لیے ایک تزویراتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کی رضامندی کا اشارہ ہے۔
اسی سلسلے میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی۔ ترک میڈیا کے مطابق یہ ملاقات استنبول میں صدارتی دفتر میں بند کمرے کے اجلاس میں ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق یہ بات چیت فلسطینی علاقوں، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں حالیہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور اس طرح کی جارحیت کے پیش نظر فلسطینیوں کے درمیان یکجہتی کی ضرورت کے گرد مرکوز تھی۔
صدر اردگان نے موجودہ تناظر میں فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اسرائیل کے اقدامات کے خلاف ترکی کے سخت موقف کو اجاگر کیا جس میں تجارتی پابندیوں سمیت مختلف پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اردگان نے فلسطینی کاز کے لیے ترکی کی غیر متزلزل حمایت اور فلسطینی عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اردگان کے بیانات نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف مبینہ مظالم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے ترکی کے عزم کی نشاندہی کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو اپنے اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور ترکی انصاف اور آزادی کی جدوجہد میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
فلسطینیوں کے لیے ترکی کی حمایت نمایاں رہی ہے، ملک پہلے ہی غزہ کی پٹی میں 45,000 ٹن سے زیادہ انسانی امداد بھیج چکا ہے۔ ہانیہ کے ساتھ اردگان کی ملاقات اور اسرائیلی اقدامات کے خلاف ان کے سخت بیانات فلسطینی کاز کے لیے ترکی کی مسلسل وابستگی اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے آمادگی کا اشارہ دیتے ہیں۔
جیسا کہ حماس قطر میں اپنی موجودگی کے حوالے سے اپنے آپشنز پر غور کر رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ خطے میں جغرافیائی سیاسی منظر نامہ تیار ہوتا جا رہا ہے، جس کے وسیع تر فلسطینی اسرائیل تنازعہ کے ممکنہ مضمرات ہیں۔