آخر کار شیڈول جاری ہوگیا انتخابی نشان نہیں روکا جاسکتا، صاف نظر آرہا ہے ایک جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا تھا ، پانی سر سے گزر چکا ہوگا تو کیا الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا۔ پشاورہائیکورٹ کے ریمارکس
“بلا” دوبارہ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا.
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم اور پارٹی نشان واپس لینے کے فیصلے پر حکم جاری کردیا . عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا، جیسے ہی عدالتی تعطیلات ختم ہوں گی بعد ڈبل بینچ میں یہ کیس سنا جائے گا۔
مزید تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جس کی سماعت تحریک انصاف کی درخواست پر جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کی پی ٹی آئی کے وکلا علی ظفر، بابر اعوان اور بیرسٹر گوہر نے دلائل دیئے۔
علی ظفر نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، پی ٹی آئی کو یہ بھی کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں .
علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بیٹ واپس لے لیا، اب ہم انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے، مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں، اس طرح ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات سے باہر کردیا گیا۔
سماعت کے دوران علی ظفر کے دلائل پر جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ ’اس کیس میں جو درخواست گزار تھے ان کا الیکشن کمیشن فیصلے میں ذکر ہے یہ کون ہیں؟‘ تو علی ظفر نے جواب دیا کہ ’الیکشن کمیشن تو خود فریق بن گیا ہے، درخواست گزار تھے وہ پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہیں، الیکشن ممکخجنہ کرانے پر صرف جرمانہ ہے، ایسی کوئی سخت سزا نہیں ہے لیکن ہمیں یہاں الیکشن سے باہر نکالا جارہاہے‘۔
