سینیٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں پر 18 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے ہیں، جب کہ بقیہ 30 نشستوں کے لیے انتخاب 2 اپریل کو ہوگا۔
خیبرپختونخوا (کے پی) میں سینیٹ کے انتخابات کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ صوبائی حکومت خصوصی نشستوں سے منتخب اراکین کے حلف لینے کے خلاف ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس سے قبل متنبہ کیا تھا کہ ارکان سے حلف نہ اٹھانے کی صورت میں کے پی میں سینیٹ انتخابات منسوخ ہوسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں صوبائی حکومت نے اس معاملے پر پیر کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی، سینیٹ کی 30 خالی نشستوں کے لیے 59 امیدوار میدان میں ہیں۔ مقابلے میں سندھ سے 12، کے پی سے 11، پنجاب سے 5 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 2 نشستیں شامل ہیں۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور انتخابی مواد کی ترسیل کے لیے ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ کی 48 خالی نشستوں پر انتخابات دو مرحلوں میں کرانے کے فیصلے سے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کا حربہ قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ دو مرحلوں میں انتخابات کرانے سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جو پہلے مرحلے میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ہموار اور شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا۔ کمیشن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔
ادھر صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کے باعث کے پی میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے خصوصی نشستوں سے منتخب ہونے والے ارکان سے حلف لینے سے انکار نے آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اگر یہ معاملہ جلد حل نہ ہوا تو یہ کے پی میں سینیٹ کے انتخابات میں تاخیر یا منسوخی کا باعث بن سکتا ہے۔
ان پیش رفت کی روشنی میں اب تمام نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں جو کہ پیر کو صوبائی حکومت کی اپیل پر سماعت کرے گی۔ عدالت کے فیصلے کے نہ صرف کے پی میں سینیٹ کے انتخابات بلکہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔