آئی جی سندھ رفیق مخدوم نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سمیت عوام کے درمیان وسیع پیمانے پر لالچ اور بدعنوانی کا اعتراف کیا۔ یہ انکشاف کراچی کے تاجروں سے ملاقات کے دوران سامنے آیا جنہوں نے شہر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی نوعیت کے بارے میں شکایات درج کرائیں۔
تاجروں نے خدشات کا اظہار کیا کہ کراچی میں جرائم اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیوں سے لے کر بڑے پیمانے پر چوری، کنٹینرز اور ٹرکوں کی لوٹ مار تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک صنعتکار نے اپنے بیٹے کی کار کے ایک نجی ہسپتال سے چوری ہونے کا ذاتی تجربہ سنایا، جس میں مجرموں کی ڈھٹائی کو نمایاں کیا گیا۔
ایک اور تاجر نے قومی شاہراہ پر ڈکیتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ چیلنجوں کے باوجود، کچھ تاجروں نے سندھ پولیس کی لاکھوں روپے مالیت کا چوری شدہ سامان برآمد کرنے کی کوششوں کو سراہا۔
آئی جی سندھ نے اس بات پر زور دیا کہ کنٹینر چوری میں ملوث جرائم پیشہ گروہوں نے اپنے نیٹ ورک اور گودام قائم کر رکھے ہیں، جو قانون کی حدود سے باہر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے جرائم کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے نظامی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صرف انفرادی مافیاز کو نشانہ بنانا طویل مدت میں کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
بھتہ خوری کے کیسز سے متعلق سوالات کے جواب میں آئی جی سندھ نے انکشاف کیا کہ 54 کیسز میں سے 12 کا تعلق منظم بھتہ خوری سے تھا جب کہ باقی کیسز ذاتی تنازعات سے جڑے تھے۔ یہ انکشاف کراچی میں جرائم کی پیچیدہ نوعیت پر روشنی ڈالتا ہے اور بدعنوانی اور جرائم سے نمٹنے کے لیے جامع اصلاحات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔