اسلام آباد ہائی کورٹ نے معروف قانونی شخصیت جسٹس بابر ستار کے خلاف توہین عدالت مہم کے حوالے سے فیصلہ کن کارروائی کی ہے۔ یہ پیش رفت جسٹس ستار کی جانب سے مبینہ طور پر ایک سوشل میڈیا مہم شروع کرنے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس ستار نے چیف جسٹس فاروق کو خط لکھا جس پر بظاہر قانونی ردعمل سامنے آیا۔
جسٹس ستار کی طرف سے لکھا گیا خط مبینہ طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے توہین عدالت کے الزام میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے فیصلے کا محرک تھا۔ ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ خط کے مندرجات کو عدالت کی طرف سے اشتعال انگیز یا توہین آمیز سمجھا گیا تھا، جس سے قانونی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ عدلیہ کے وقار یا اختیار کو مجروح کرنے والے اقدامات کے خلاف ایک سنجیدہ موقف کی نشاندہی کرتا ہے۔ جسٹس ستار کے خط کو توہین عدالت کے مقدمے میں تبدیل کر کے، عدالت ایسے اقدامات کے نتائج کے حوالے سے سخت پیغام دے رہی ہے، خاص طور پر قانونی پس منظر رکھنے والے افراد کی طرف سے۔
جیسے جیسے کیس سامنے آئے گا، توقع ہے کہ اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک بنچ تشکیل دیا جائے گا۔ کیس میں ڈائری نمبر کا تفویض اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جلد ہی رسمی کارروائی شروع ہو جائے گی، جس سے دونوں فریقین کو اپنے دلائل اور شواہد عدالت کے سامنے پیش کر سکیں گے۔
اس قانونی کہانی کے پس منظر میں ایک سوشل میڈیا مہم شامل ہے جس میں جسٹس ستار کی شہریت کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک الگ بیان میں واضح کیا کہ جسٹس ستار پاکستان کے شہری ہیں اور کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں رکھتے، سوشل میڈیا پر کیے جانے والے دعوؤں کا مقابلہ کیا۔
عدالت نے روشنی ڈالی کہ اس مہم میں جسٹس ستار کے خاندان کے بارے میں خفیہ معلومات بشمول ان کی سفری دستاویزات کی پوسٹنگ شامل تھی۔ مہم کے اس پہلو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ذاتی معلومات کے استعمال کے حوالے سے رازداری اور اخلاقی معیارات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا جسٹس بابر ستار کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ عدلیہ کی سالمیت اور احترام کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہ مقدمہ عوامی گفتگو سے وابستہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی یاد دہانی ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں۔