کمرہ عدالت میں صحافیوں سے حالیہ غیر رسمی گفتگو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر فواد چوہدری نے زور دے کر کہا کہ موجودہ حکومت کو مودی حکومت اور آیان علی کے علاوہ کوئی تسلیم نہیں کرتا۔
چوہدری کے تبصرے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہیں، جو موجودہ انتظامیہ کے لیے بین الاقوامی حمایت کی کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے کسی بھی ملک نے عالمی سطح پر اس کی تنہائی کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت کو مبارکباد نہیں دی۔
چوہدری کے ریمارکس نے موجودہ حکومت کی نزاکت کو بھی واضح کیا، اور یہ تجویز کیا کہ یہ مئی سے آگے زندہ نہیں رہ سکے گی۔ یہ پیشین گوئی پاکستان میں جاری سیاسی بحران کی عکاسی کرتی ہے، جس میں مختلف جماعتیں اقتدار اور اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں۔
مزید برآں، چوہدری نے نشاندہی کی کہ آصف زرداری کو خیبرپختونخوا سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا، جو اپنی سیاسی اہمیت کے لیے جانا جاتا ہے۔ زرداری کی حمایت کا یہ فقدان اس کے بنیادی اتحادوں سے باہر حکومت پر وسیع تر عدم اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے۔
چوہدری کے تبصروں نے مولانا فضل الرحمان کو بھی متاثر کیا، جو اپنی سیاسی سرگرمی کے لیے مشہور اپوزیشن لیڈر ہیں۔ چوہدری نے خبردار کیا کہ اگر مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو حکومت بے دخل ہو جائے گی۔ یہ بیان موجودہ انتظامیہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی عدم اطمینان اور اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کے امکانات کی عکاسی کرتا ہے۔
مجموعی طور پر چوہدری کے ریمارکس پاکستان میں موجودہ حکومت کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کرتے ہیں۔ محدود بین الاقوامی حمایت اور اندرونی اختلاف کے ساتھ، انتظامیہ کو اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ آنے والے مہینے پاکستان کی حکومت کے مستقبل اور اس کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرنے کے لیے اہم ہوں گے۔
چوہدری کے تبصروں سے پاکستان کی سیاسی حرکیات کی تشکیل میں مودی سرکار جیسے بیرونی اداکاروں کے کردار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ مودی حکومت اور آیان علی کو موجودہ انتظامیہ کے واحد حامیوں کے طور پر تسلیم کرنا اتحادوں اور دشمنیوں کے ایک پیچیدہ جال کی نشاندہی کرتا ہے جس کے پاکستان کے مستقبل پر بہت دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔