قومی اسمبلی کی جانب سے شہباز شریف اور عمر ایوب کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی کی منظوری پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اتحادی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے کاغذات نامزدگی سیکرٹری قومی اسمبلی کو جمع کرائے، اس اقدام نے توقعات اور تنازعہ دونوں کو جنم دیا ہے۔
منظوری کی طرف جانے والا عمل اپنے چیلنجوں کے بغیر نہیں تھا۔ سنی اتحاد کونسل نے شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات اٹھائے، جو اس الیکشن کی خصوصیت میں شدید مقابلے اور جانچ پڑتال کی عکاسی کرتا ہے۔ اعتراضات کے باوجود قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مکمل جانچ پڑتال کے بعد شہباز شریف کے آٹھ اور عمر ایوب کے چار کاغذات نامزدگی کی منظوری کی تصدیق کر دی۔
یہ پیش رفت وزیر اعظم کے لیے آنے والے انتخابات کی نازک نوعیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ قومی اسمبلی کی 336 نشستوں کے ساتھ وزیراعظم کی نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 169 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ شہباز شریف کی حمایت کرنے والی اتحادی جماعتوں نے 209 اراکین کی حمایت پر فخر کرتے ہوئے ان کی حمایت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، جس سے شریف کی امیدواری کو نمایاں طور پر تقویت ملی ہے۔ اس کے برعکس سنی اتحاد کونسل نے اپنا وزن عمر ایوب کے پیچھے ڈال دیا ہے جن کے اسمبلی میں 91 حامی ہیں۔ یہ ایک قریبی مقابلہ کرنے والے انتخابات کا مرحلہ طے کرتا ہے، جس میں دونوں فریقوں کو مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
اس الیکشن کے لیے بننے والے اتحاد پہلے سے ہی شدید سیاسی منظر نامے میں پیچیدگی کی تہوں کو شامل کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، اور پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی اہم جماعتوں کی حمایت حاصل کی ہے، اور اس دوڑ میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا ہے۔ اس کے برعکس، سنی اتحاد کونسل کی طرف سے عمر ایوب کی پشت پناہی شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے لیے بولی کے لیے ایک زبردست چیلنج کا اشارہ دیتی ہے۔
چونکہ قوم 3 مارچ بروز اتوار کو ہونے والے اس اہم انتخابات کے نتائج کا انتظار کر رہی ہے، پاکستان کی سیاسی فضا قیاس آرائیوں اور قیاس آرائیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگلے وزیر اعظم کا انتخاب نہ صرف ملک کی سیاسی سمت کا تعین کرے گا بلکہ اس کے مستقبل کے راستے پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ دونوں امیدواروں کو مضبوط اتحادوں کی حمایت حاصل ہے اور یہ انتخاب ایک ڈرامائی اور قریب سے دیکھا جانے والا واقعہ بننے کے لیے تیار ہے جو آنے والے سالوں میں پاکستان کی حکمرانی کا راستہ طے کرے گا۔