وزیر اعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر کے ساتھ توانائی اور ٹیکس کے تنازعات بالخصوص نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس منصوبے کا مستقبل غیر یقینی ہے، ذرائع بتاتے ہیں کہ کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ منصوبے کے تسلسل کے لیے پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے درمیان ایک اہم معاہدہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔
نیلم جہلم پاور پراجیکٹ، جو 969 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک اہم منصوبہ رہا ہے۔ تاہم، سیلز ٹیکس کے مسائل اور پانی کے استعمال کے چارجز پر جاری اختلافات نے پیش رفت میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ ان معاملات کے حوالے سے پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے درمیان مذاکرات ابھی تک کسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر کے ساتھ بجلی کے مسائل پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انہوں نے پاور سیکٹر اور ٹیکس سے متعلق مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ یہ کمیٹی آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ مل کر ان مسائل کے حل کے لیے سفارشات فراہم کرے گی۔
نیلم جہلم پاور پراجیکٹ بجلی کی پیداوار کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے لیکن حل نہ ہونے والے تنازعات کی وجہ سے اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ اس منصوبے کو مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں دیکھ بھال کے لیے بند ہونا اور سستی بجلی کی فراہمی سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا شامل ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس کے معاملات اور پانی کے استعمال کے چارجز پر مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ ان مسائل کے حل کے لیے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان بات چیت ہوتی رہی ہے تاہم کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کمیٹی کے قیام کو ان مسائل کے حل کی جانب ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ کمیٹی کی سفارشات دونوں حکومتوں کے درمیان پاور سیکٹر اور ٹیکس سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کریں گی۔
آخر میں، اگرچہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ ایک اہم کامیابی ہے، لیکن حل نہ ہونے والے تنازعات کی وجہ سے اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے کمیٹی کا قیام ان مسائل کا حل تلاش کرنے اور منصوبے کے تسلسل کو یقینی بنانے کی جانب درست سمت میں ایک قدم ہے