وفاقی کابینہ نے سرکاری طور پر گندم کی درآمد پر پابندی ہٹانے کا اعلان کیا ہے، یہ پابندی 2019 سے نافذ تھی۔ گندم کی مقامی دستیابی کے باوجود، یہ فیصلہ ملک میں آٹے کی درآمد کی اجازت دیتا ہے۔ یہ اقدام پاکستان میں گندم کی فراہمی اور دستیابی سے متعلق خدشات کے درمیان سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق گندم کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ گندم کی دستیابی کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا۔ حکومت کا مقصد آٹے کی درآمد کی اجازت دے کر مارکیٹ میں کسی بھی ممکنہ قلت کو دور کرنا ہے۔
اس فیصلے میں اسمگلنگ کے معاملے کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے پہلے گندم اور آٹے کی برآمد پر سخت اقدامات کیے گئے تھے۔ گندم کی درآمد پر پابندی ہٹانے سے، حکومت اسمگلنگ کے اثرات کو کم کرنے اور مارکیٹ میں آٹے کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کی امید رکھتی ہے۔
یہ اطلاع ہے کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے ممالک بھی درآمد شدہ آٹے کے بنیادی وصول کنندگان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر غیر ملکی اداروں کو بھی پاکستان سے آٹا خریدنے کی اجازت ہوگی۔
گندم کی درآمد پر پابندی اٹھانے کے فیصلے سے معیشت بالخصوص تجارت اور تجارت کے حوالے سے مثبت اثرات متوقع ہیں۔ امید ہے کہ اس اقدام سے مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں کو مستحکم کرنے اور صارفین کے لیے گندم اور آٹے کی مناسب فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
حکومت نے آٹے کی درآمد کی اجازت کے کسی ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت نگرانی اور نگرانی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے کہ درآمد شدہ آٹا اپنے مطلوبہ مقصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس سے مارکیٹ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
مجموعی طور پر، گندم کی درآمد پر پابندی اٹھانے کے فیصلے کو حکومت کی جانب سے گندم کی دستیابی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے اور مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایک فعال قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آٹے کی درآمد کی اجازت دے کر، حکومت کا مقصد ملکی پیداوار اور درآمدات کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے تاکہ ملک میں گندم اور آٹے کی مانگ کو پورا کیا جا سکے۔