قومی اسمبلی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کے ایک متنازعہ باب کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ بھٹو، پاکستانی سیاست کی ایک بلند پایہ شخصیت، نے ملک کے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1979 میں ان کی پھانسی طویل عرصے سے تنازعہ کا باعث بنی ہوئی ہے، بہت سے لوگ اس مقدمے کی انصاف پسندی اور قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سزا سنائی گئی۔
قومی اسمبلی میں اس تجویز کی منظوری سینیٹ اور دیگر صوبائی اسمبلیوں بشمول سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں اسی طرح کی تحریکوں کے بعد عمل میں آئی ہے۔ یہ فیصلے پاکستان کی سیاسی قیادت کے درمیان اس کیس پر نظرثانی کرنے اور اسے درست کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے اتفاق کی عکاسی کرتے ہیں جسے بہت سے لوگ ایک سنگین ناانصافی سمجھتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں طے پانے والے معاہدے میں کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سب سے پہلے، یہ فائل کے صدر زرداری کے حوالہ اور بلاول بھٹو زرداری کی توثیق کو تسلیم کرتا ہے، جو پیپلز پارٹی کی قیادت کے اندر ایک متفقہ موقف کا اشارہ دیتا ہے۔ دوم، یہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کی رائے پر عمل کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے عزم پر زور دیتا ہے۔
معاہدے کے مرکزی مطالبات میں سے ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ جائزے کو یقینی بنانے کے لیے مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینا ہے۔ اس میں بھٹو کو دی گئی سزائے موت کی قانونی حیثیت پر نظر ثانی کرنا اور اسے ممکنہ طور پر کالعدم کرنا شامل ہے۔ مزید برآں، معاہدے میں ذوالفقار علی بھٹو کو باضابطہ طور پر شہید کے طور پر تسلیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، یہ ایک ایسا اقدام ہے جو ان کے حامیوں اور پیپلز پارٹی کے لیے علامتی اہمیت رکھتا ہے۔
مزید برآں، معاہدے میں ملک کے سیاسی منظر نامے میں ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے، بھٹو کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے مرنے کے بعد دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس اشارے کو بھٹو کی میراث کو عزت دینے اور پاکستانی سیاست پر ان کے لازوال اثرات کو تسلیم کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر قومی اسمبلی کا ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ تاریخی حساب کتاب اور انصاف کی جانب ایک وسیع تر تحریک کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں میں ماضی کی ناانصافیوں کو دور کرنے اور ملک کے عدالتی نظام میں انصاف اور قانونی حیثیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے آمادگی کو ظاہر کرتا ہے۔