خیبرپختونخوا (کے پی) کی نو تشکیل شدہ کابینہ کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے، جس سے نئے وزراء کی ناتجربہ کاری کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اختر ولی نے روشنی ڈالی کہ صوبائی کابینہ کے 11 وزراء میں سے کسی نے بھی یونین کونسل کی قیادت نہیں کی، جس سے صوبے میں موثر انداز میں حکومت کرنے کی اہلیت پر شک ہے۔
ولی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر بدعنوانی کا الزام بھی لگایا، الزام لگایا کہ کے پی میں وزارتیں کروڑوں روپے میں فروخت کی گئیں، اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو ان عہدوں سے نوازا گیا۔ اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے صوبائی ترجمان محمد علی سیف نے کابینہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تمام وزارتوں میں وزراء کی معاونت کے لیے سیکرٹریز ہوتے ہیں اور وزراء کو ذمہ داریاں سونپنا خلاف قانون نہیں ہے۔
کے پی کی نئی کابینہ کی تشکیل میں قاسم علی شاہ کو وزیر صحت، زاہد شاہ کو وزیر خوراک، عاقب اللہ کو وزیر آبپاشی، فیصل ترین کو وزیر تعلیم اور مینا خان کو ہائیر ایجوکیشن کا وزیر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آفتاب عالم کو وزیر قانون، فضل حکیم کو وزیر جنگلات، محمد سجاد کو وزیر زراعت، عدنان قادری کو وزیر مذہبی امور، نذیر احمد عباسی کو وزیر خزانہ اور پختون یار کو صحت انجینئرنگ کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ بھی پہلی بار کابینہ میں شامل ہوئے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ کے پی کی صوبائی کابینہ نے صوابی سے صرف دو وزراء، دو مشیروں اور ایک معاون خصوصی کا انتخاب کیا ہے۔ اس نے ناقدین کے درمیان ابرو اٹھائے ہیں، جو دلیل دیتے ہیں کہ صوابی سے نمائندگی صوبے کے تنوع کی عکاسی نہیں کرتی۔
نئی کابینہ پر تنقید ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کے پی کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں معاشی مشکلات، سیکیورٹی کے مسائل اور جاری COVID-19 وبائی امراض شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے میں نئے وزراء کی تاثیر دیکھنا باقی ہے، لیکن ان کے اہم یونین کونسلوں میں تجربے کی کمی نے صوبے کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کی ان کی صلاحیت پر شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
آخر میں، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کے پی کی نئی کابینہ پر تنقید وزراء کی ناتجربہ کاری اور تقرری کے عمل میں بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں خدشات کو ظاہر کرتی ہے۔ آنے والے مہینوں میں کے پی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نئی کابینہ کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔