سپریم کورٹ نے شہر میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے تحت کراچی کی تمام عمارتوں بشمول رینجر ہیڈ کوارٹر، گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انسداد تجاوزات مہم سے متعلق سماعت کے دوران سامنے آیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے غیر قانونی ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں نادانستہ طور پر ایسی رکاوٹوں کی اجازت دے کر تجاوزات کو فروغ دے رہی ہیں۔ انہوں نے اس طرز عمل پر مزید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ جب لوگ انگریزوں کے دور سے درختوں کے سائے میں بیٹھتے ہیں تو انگریز انعامات کما رہے ہیں۔
عدالت نے حکام کو 3 دن میں تجاوزات ختم کرنے اور اس کے بعد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ سینئر افسران کو تجاوزات کے خاتمے اور ذمہ داروں سے جرمانے وصول کرنے کی کوششوں کی قیادت کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ مزید برآں، پیدل چلنے والوں سے ان کو درپیش کسی بھی مشکلات کے بارے میں مشورہ کیا جانا چاہیے، شہری منصوبہ بندی اور ترقی کے لیے عوام پر مبنی نقطہ نظر پر زور دیا جائے۔
مزید برآں، عدالت نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں سڑکیں صاف کرے اور ذمہ دار فریقین سے تجاوزات ہٹانے سے متعلق جرمانے وصول کرے۔ یہ ہدایت عوامی مقامات تک رسائی اور غیر مجاز رکاوٹوں سے پاک ہونے کو یقینی بنانے کے لیے عدالت کے عزم کی نشاندہی کرتی ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق تمام متعلقہ اور سیکیورٹی اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل کریں اور اس کی کاپی بھیجیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر آگاہی اور تعمیل کو یقینی بناتے ہوئے وفاقی اداروں کو فیصلے سے آگاہ کریں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کراچی میں شہری منصوبہ بندی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع تر کوشش کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد اس کے رہائشیوں کے لیے ایک زیادہ قابل رسائی اور منظم شہر بنانا ہے۔ تجاوزات سے نمٹ کر اور رکاوٹیں ہٹا کر، عدالت کراچی کے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور شہر کے مجموعی شہری منظر نامے کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔