اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت منظور کرلی۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سنایا۔
عدالت کا فیصلہ عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرنے کے لیے دلائل پیش کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آج کا اجلاس اپیل کے لیے مقرر ہے؟ واضح کیا گیا کہ کوئی اپیل نہیں کی جائے گی تاہم سزا کی معطلی کے خلاف دلائل پیش کیے جائیں گے۔
علی ظفر نے کہا کہ سزا کی معطلی کو چیلنج کرنے کے بجائے مرکزی اپیل پر دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سزا کے خلاف اپیل عید کی تعطیلات کے بعد ہوگی۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس 5 ستمبر 2022 کو دائر کیا گیا تھا اور 31 جنوری 2024 کو عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 14، 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2018 سے 2022 کے دوران وزارت عظمیٰ کے دوران غیر ممالک سے قیمتی تحائف کم قیمتوں پر حاصل کیے اور پھر ان تحائف کو 635,000 ڈالر میں فروخت کیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 اکتوبر 2022 کو کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 63(1) کے تحت توشہ خانہ کے تحائف اور اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانات دئیے۔
علاوہ ازیں الیکشن واچ ڈاگ کی جانب سے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں توشہ خانہ کیس میں غلط معلومات دینے پر پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کرنے کی استدعا کی گئی۔
10 مئی 2023 کو ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں غلط معلومات فراہم کرنے پر عمران خان پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی تاہم 4 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو سننے اور فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔ سات دن کے اندر بنایا جائے گا۔
4 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے جج کو درخواست گزار کو دوبارہ سننے کی ہدایت کی تھی اور پھر 5 اگست کو سیشن کورٹ نے عمران خان کو تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔ روپے جرمانہ توشہ خانہ کیس میں 100,000۔