بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر 16 گھنٹے سے زائد وقفے وقفے سے جاری بارش کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہے، جس نے شہر میں پانی بھر دیا ہے اور رہائشیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سیلاب نے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، بجلی کی سپلائی بند کر دی ہے اور کئی علاقے پانی میں ڈوب گئے ہیں۔
وقفے وقفے سے ہونے والی بارش نے بڑے پیمانے پر سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے، سڑکیں ندیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور پانی گھروں اور کاروباروں میں داخل ہو گیا ہے۔ صورتحال نے رہائشیوں کے لیے زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے، جن میں سے بہت سے بنیادی ضروریات تک رسائی کے بغیر پھنسے ہوئے ہیں۔ متعدد عمارتیں گر گئی ہیں، جس نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے اور حکام کو بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی کوششیں شروع کرنے پر آمادہ کیا ہے۔
نکاسی آب کے موثر نظام کی کمی نے مسئلہ کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، جس میں سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا ہے اور کئی محلوں بشمول تو باغ، شیخ عمر، سہرابی وارڈ، مالابند تھانہ وارڈ، اور شمبہ سمائل میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ ائرپورٹ روڈ پر واقع جناح بازار اور بلال مسجد جیسے تجارتی علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں، سیلابی پانی دکانوں میں داخل ہونے سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
یونین کونسل کے چیئرمین یوسف سربندن نے طوفان کے ساتھ چلنے والی تیز ہواؤں کے باعث کشتیاں ٹکرانے اور الٹنے کے واقعات کی اطلاع دی۔ دریں اثناء گوادر کے نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے سوشل میڈیا پر صورتحال کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پورا شہر ڈوب گیا ہے اور اس تباہی کی وجہ کرپشن اور بدانتظامی کو قرار دیا ہے۔
امدادی کارروائیوں کو تیز کرنے کے لیے گوادر میں ہنگامی حالت کے اعلان کے مطالبات کے ساتھ فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سینیٹر کبیر بابر نے امداد کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن (NDMC) اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) پر زور دیا کہ وہ متاثرہ شہر کو مدد فراہم کریں۔